تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | اپنی خلقت کے بارے میں انسان کو فہم و ادراک ہے کہ وہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن زیادہ تر نمازی، حاجی اور روزہ دار مومنین یہ نہیں جانتے کہ وہ کس مقام کی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کربلا کے سانحہ کے گواہ اور پانچویں امام حضرت محمد باقر علیہ السلام کے فرمودات ہیں اے جابر! اللہ تبارک تعالٰی نے مومنین کو جنت کی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (اصول کافی، جلد 4، صفحہ 65)
علامہ مجلسی مراۃ العقول میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے "من ریح روجہ" سے مراد ہے اس روح کی موج جس کو خدا نے نفخ کیا ہے انبیاء اور اوصیا میں جیسا کہ فرمایا ہے نفخت فیہ من روحی اور یہ اس کی رحمت ہے۔
یہ ایک دلچسپ، فخر و مباحات کی وجہ ہے کہ ایک طبقہ عام مٹی سے پیدا کیے گئے، مومنین جنت کی مٹی سے پیدا کیے گئے اور اب ذہن نشین کریں۔ حضرت ثقتہ الاسلام علامہ فہامہ مولانا الشیخ بن محمد یعقوب کلینی علیہ الرحمتہ اپنی معروف کتاب "الشافی" میں لکھتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ہمارے شیعہ اللہ کے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ روح مشابہ ہے ریح سے کیونکہ وہ بدن میں جاری و ساری ہے۔ خدا نے اپنے نفس کی طرف روح کو نسبت دی ہے جیسے گھروں میں سے ایک گھر کو، رسولوں میں سے ابراہیمؑ کو اپنی خصوصیات کے ساتھ اور یہ سب مخلوق الٰہی ہیں۔ اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ یہ بھی مخلوق ہے اور ابُ، اُم سےمراد یہ ہے کہ طینت بمنزلہ ماں ہے اور روح بمنزلہ باپ ہے چونکہ ارواح مومنین ایک دوسرے سے اختلاط و ارتباط رکھتی ہیں لہٰذا ایک کے حُزن و ملال کا اثر دوسرے پر پڑتا ہے، اسی طرح خوشی کا۔
کلینی علیہ الرحمتہ کی مانند شیخ صدوق علیہ الرحمتہ نے معانی الاخبار میں لکھا ہے کہ ابو بصیر سے مروی ہے کہ امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا بن رسول اللہ بعض اوقات میں خود محزون ہوجاتا ہوں لیکن کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا۔
جہاں تک مطالعہ، تحقیقی علم، مشاہدہ اور ذاتی احساس کا تجربہ وابستہ ہے اور جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا رنج یا خوشی ہمارے رنج و خوشی کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ ہماری تمھاری طینت اور نور ایک ہے۔
واضح فرق کہاں پر ہے یہ راقم قارئین کے ذہن عالیہ کے حوالے کرنا چاہتا ہے کہ اگر تمھاری طینت بدستور رہتی تو تم اور ہم برابر ہوتے لیکن تمھاری طینت تمھارے اعدا کی طینت سے ممزوج ہوگئی اگر ایسا نہ ہوتا تو تم سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہ ہوتا۔بہرکیف، امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں، اس کے محاسن اور رہنما ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے خیانت نہیں کرتے اور وہ دونوں ایک بدن کے مانند ہیں۔ اگر ایک عضو کو اذیت اور تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن اس سے متاذی ہو جاتا ہے۔ دو مومنوں کی روح ایک ہی ہوتی ہے۔ خالق کائنات نے مومنین کو جنت کی مٹی سے پیدا کیا ہے اور ان کی صورت میں نسیمٍ جنت کو لہرا دیا ہے۔
ایک مومن دوسرے مومن کا صرف بھائی یا آنکھ ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک مومن دوسرے مومن کا خادم بھی ہوتا ہے۔ ابو بصیر نے دریافت کیا، یا مولاؑ یہ کیسے۔ امام صادقؑ نے فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کے کام آتا ہے۔
راوی فضل بن یسار سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا ہے کہ مومن، مومن کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، ذلیل نہیں کرتا، اس کی غیبت نہیں کرتا، اس سے خیانت نہیں کرتا، اسے محروم نہیں کرتا، حقوق کی پامالی نہیں کرتا، غاصبانہ حرکات و سکنات سے پرہیز کرتا، استحصال، ظلم و جور نہیں کرتا، عزت کی نیلامی نہیں کرتا، انا، اقرباء، قبیلہ اور فرقہ پرستی نہیں کرتا، تہمت نہیں لگاتا، تعصب و تخریب کاری نہیں کرتا۔ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے امن و سلامتی کا ضامن ہوتا ہے۔
ہمارے قوم کے غیور! موجودہ سنگین حالات میں اللہ، اس کی کتاب قرآن، رحمت العالمین، حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی حدیث پاک اور اہلبیت علیہم السلام کے اقوال کا اتباع کرتے ہوئے اپنی زندگی اور صلاحیت سے دوسرے مومنین کی زندگی کے لیے مددگار، مفید اور سلامتی کا ذریعہ بنیں۔ رضائے الٰہی اور شفاعتٍ رسول اکرم ﷺ قرار پائے۔
یہ قابلٍ الذکر ہے کہ کوئی قوم جب شقاوت، بد خلقی اور برائی وغیرہ کی حدوں کو پار کر لیتی ہے تو اللہ رب العالمین اس پر دوسری قوم کو مسلط کر دیتا ہے۔ اگر ایک تعلیم یافتہ، سمجھدار، با کردار و عمل قوم ہے تو ڈوبنے کے بعد دوبارہ ابھرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے لیے محاسبہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اے پروردگار! ہدایت، مدد اور رہنمائی فرما دے!